رمضان اور عالم اسلام | ||
رمضان اور عالم اسلام دکتر سکندر عباس زیدی ماہ رمضان المبارک کا آغاز در حقیقت مسلمانوں کے لئے موسم بہاراں کی آمد ہے۔ اس مبارک مہینے کا آغاز مسلمانوں کی عید ہے جس پر وہ ایک دوسرے کو جتنی مبارکباد پیش کریں کم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ایسے بے شمار ایسے مسائل و پریشانی میں گھرا رہتا ہے جو اسے ذکر الہی سے غافل اور راہ اللہ سے دور کر دیتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں موجود ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان اپنے روائتی جوش و خروش سے رمضان کا اہتمام کرتے ہیں۔ انسانی خواہشیں اور جذبات اسے پستی و تنزلی کی جانب دھکیلتی ہیں۔ ماہ رمضان کی آمد پر ھم جیسے انسانوں کو ایک موقع ملتا ہے کہ اپنی روح اور باطن کو جو فطری اور قدرتی طور پر پاکبازی کی جانب مائل رہتا ہے اسے مزید بلندیوں کی سمت لے جائیں ، قرب الہی حاصل کریں اور اخلاق حسنہ سے خود کو سنوار لیں ۔ اس لیے ماہ رمضان مبارک انسان کے لئے خود سازی اور نفس کی تعمیر نو کا مہینہ ہے اور اللہ پاک سے مانوس اور اس کے قریب ہونے کے لئے سب سے خوبصورت مہینہ ہے جو نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ماہ رمضان اس لئے بے شمار نعمتوں اور برکتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے کہ اِس ماہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے لوح ِمحفوظ سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر قرآن مجید نازل فرمایا۔
چین میں ماہ رمضان کی آمد پر تمام مذہبی مقامات پر مسلمانوں کو دینی احکام سے آشنائی دلانے کے لیے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ چین کے مسلمان اس مہینے میں اپنے دینی فرائض کو انجام دینے پر نہایت درجہ پابندی کرتے ہیں۔ اور مفصل طریقے سے تراویاں ادا کرتے ہیں۔ یہ تراویاں بیس رکعات پر مشتمل ہے کہ جو جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ اور ہر رکعت کے بعد دعائے " یا مقلب القلوب" پڑھی جاتی ہے۔ تلاوت قرآن اور شب قدر میں شب بیداری خاص حائز اہمیت ہے۔ افطار کے وقت چائے ، شیرینی اور خرما زیادہ تر استعمال کیا جاتا ہے جو چین کے مسلمانوں کی منجملہ غذائوں میں شامل ہے۔ جرمنی میں ماہ مبارک رمضان تمام دیگر ممالک سے مختلف نظر آتا ہے۔ لوگوں کی سماجی زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ زندگی اسی تیزی اور سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہوتی ہے۔ تنزانیہ کے مسلمان جو حد درجہ ماہ مبارک رمضان کی اہمیت کے قائل ہیں پندرہ شعبان سے ہی ماہ مبارک کے استقبال میں تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ سڑکوں کو چراغاں اور مزین کرتے ہیں مساجد کو زینت دیتے ہیں اور اپنے اپنے رشتہ داروں کو ہدایا اور تحائف عطا کرتے ہیں۔ فرانس کے مسلمان بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اس مہینے کو اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے بہترین فرصت سمجھتے ہیں۔ اس حوالہ سے پیرس کی جامع مسجد میں اسلامی کتابوں اور دیگر اسلامی آثار کی نمایش لگائی جاتی ہے۔ کتابوں، جانماز،سجدگاہ و تسبیح وغیرہ اور اسلامی سیڈیوں کا بازار کافی کینسیشن کے ساتھ اس مسجد کے اطراف میں لگایا جاتا ہے۔ جس سے کافی تعداد میں غیر مسلمان اسلام کو پہچاننے کی طرف مجذوب ہوتے ہیں۔ جرمنی میں زندگی کی تیز رفتار وہ چیز ہے جو ماہ رمضان کے مراسم کو دوسرے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ جرمنی میں دن گرمیوں کے موسم میں بہت لمبے اور سردیوں میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ عصر کے ۴ بجے دن ختم ہو جاتا ہے۔ جرمنی میں تقریبا ساڑھے تین سو میلین مسلمان زندگی گزار رہے ہیں۔ اور کثیر تعداد میں مسلمان کمپنیوں اور اداروں میں مشغول کار ہیں۔ ماہ مبارک میں مسلمانوں کے ساتھ خصوصی رعایت برتی جاتی ہے انہیں دو شفٹوں میں کام کرنے کی سہولت اور نماز اور افطار کے وقت رخصت فراہم کی جاتی ہے۔ چونکہ جرمنی میں بہت سارے مسلمان مہاجر ہیں اس وجہ سے کوشش کرتے ہیں کہ ان ایام میں ایک دوسرے کی زیارت کرنے جائیں تاکہ انہیں تنہائی کا احساس نہ ہو۔۶ میلین سے زیادہ فرانس کے مسلم دنیا کے دیگر مسلمانوں کی طرح ماہ مبارک کی آمد پر میٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں مساجد کو چراغاں کرتے ہیں اور انہیں آباد کرتے ہیں۔ فرانس کے مسلمانوں نے نماز و روزہ کے علاوہ اپنی معاشی اور اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی غرض سے کچھ اسلامی فنڈز قائم کر رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ محتاج اور مستحق مسلمانوں کی مالی ضروریات کو پورا کرتے ہیں حتی بعض اوقات غیر مسلمانوں کی بھی مدد کرتے ہیں ان کا یہ عمل غیر مسلمانوں کے درمیان قابل تحسین ہے۔ فرانس میں ماہ مبارک رمضان کے اہم پروگراموں میں سے ایک مساجد میں ختم قرآن کرنا اور مستحبی نمازیں ادا کرنا ہے۔ مذہبی نشستوں کی تشکیل، تفسیر قرآن، شرح احادیث، اخلاق اور تاریخ اسلام کے جلسات مختلف مراکز میں اس مہینہ سے مخصوص ہیں۔ امریکہ میں زمینی وسعت کی وجہ سے مختلف شہروں میں مختلف افق پائے جاتے ہیں۔ لہذا افطار اور سحر کے وقت کی تشخیص ایک معضل ہے۔ کچھ سال پہلے ایک ایرانی عالم دین نے امریکہ میں ایک ٹی وی چینل قائم کیا جو صرف ہر شہر کے شرعی اوقات بیان کرتا تھا اس نے کافی تعداد میں ناظرین کو اپنی طرف جذب کیا۔ لیکن اب مختلف طرح کی ویب سائٹیں ، مساجد اور دینی مراکز کے قیام سے یہ مشکل کافی حد تک آسان ہو چکی ہے۔امریکہ کے متدین مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل حلال گوشت کی عدم دستیابی ہے۔ لہذا وہ لوگ حلال گوشت حاصل کرنے کے لیے مجبور ہیں کافی طولانی سفر کریں۔ اور زحمت اٹھائیں اگر چہ مسلمانوں کی تعداد میں کثرت سے اضافہ ہونے کی وجہ سے اسلامی ریسٹورینٹ کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ نیویارک کے مسلمانوں کے لیے افطاری کا انتظام کرتا ہے حال حاضر میں ہر رات دو ہزار سے زیادہ روزہ دار نماز جماعت ادا کرنے کے بعد افطاری کے پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔ ماہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی ایران اور افغانستان اور عرب ممالک میں تیاریوں کا سلسہ شروع ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں باہمی طور پر افطار ان کی جملہ رسومات میں سے ہے۔ انواع و اقسام کی سرگرمیاں عمومی جگہوں اور مساجد میں ان کا معمول ہے۔ اور لوگ اپنے روزمرہ امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اللہ کی عبادت اور قرآن کی تلاوت بھی انجام دیتے ہیں۔ دینی کلاسیں اور کنفرانسیں اس مہینے میں منعقد ہوتی ہیں۔ ان کی افطار میں غذائیں کھجور ، سلاد روٹی، چاول، گوشت، دودھ اور پھل کے ساتھ قہوہ وغیرہ ہے۔ دفاتر کے اوقات کار میں تبدیلی آتی ہے۔ ترکی کی ثقافت میں اس کے باوجود کہ کافی تبدیلی واقع ہو چکی ہے لیکن ماہ رمضان اپنی شان و شوکت کے ساتھ کما کان باقی ہے۔ وہ ماہ رمضان کا مساجد کے مناروں کو چراغاں کر کے اور جشن و سرود کی محفلیں منعقد کر کے ، استقبال کرتے ہیں۔ ترکی کی مذہبی ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ۷۷ ہزار مساجد اس ملک میں موجود ہیں۔ تلاوت قرآن اور آنکارا کی جامع مسجد اور سلطان احمد کی مسجد میں دینی کتابوں کی نمائش لگا کر ماہ رمضان کی آمد کی علامتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس مہینہ میں وہ بچے کہ جو مذہبی مراسم میں شرکت کرتے ہیں ان کو کافی دین کی طرف رجحان کا شوق دلایا جاتا ہے۔ اور ماہ رمضان کی مناسبت سے ٹی وی پروگراموں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان، بنگله دیش اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سائرن کی آواز سے رمضان کی آمد کا اعلان کیا جاتا ہے اور سائرن سن کر ہی لوگ سحر اور افطار کرتے ہیں ۔ کہیں کہیں گولے بھی داغے جاتے ہیں اور بعض مقامات پر اذان کی آواز ہی وقت ہونے کا اعلان ہوتی ہے۔ پرانی دہلی اور جامع مسجد کے علاقے میں یہ سماں کچھ زیادہ ہی رہتاہے جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتا ہے۔ سائرن افطار اور سحری دونوں وقت بجایا جاتاہے۔ بعض جگہوں میں مساجد سے مسلسل اعلان ہوتا ہے کہ سحری کا وقت ہوگیا ہے یا وقت ختم ہونے میں صرف اتنی دیر باقی ہے۔ بعض مقامات پر مسجد کے ہی لاوڈ اسپیکر سے نعت اورحمد کا سلسلہ سحری کے اوقات میں مسلسل جاری رہتاہے لہذٰا جولوگ اعلان سے نہیں جاگ پاتے اس کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک طریقہ جو اب صرف دیہاتوں اور قصبوں تک محدود رہ گیاہے اور لاوڈ اسپیکر کی ایجاد سے پہلے ہی سے معروف ہے وہ یہ کہ گاؤں یا محلے کے چند افراد کی ایک ٹیم سحری کے مقررہ وقت سے پہلے گھروں پر جاکر لوگوں کو جگاتی ہے اور راستے بھر نعت حمد اور ترانے گاتی جاتی ہے۔ بعض علاقوں میں یہ خدمت گاؤں یا آس پاس کے علاقے کے غرباانجام دیتے ہیں ۔سحری کے روحانی وقت میں عموماان کی حمدو نعت دلوں میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور ’’اٹھو روزے دارو! سحری کھالو ‘‘کا نعرہ بڑا ہی زوردار معلوم ہوتا ہے جس سے نیند یک لخت غائب ہوجاتی ہے ۔ رمضان کے آخری ایام میں اس ٹیم کا ’’الوداع ماہ رمضان۔۔‘‘ کا پرسوزترانہ عموما ہر خاص وعام کے لئے ایک کسک چھوڑ جاتاہے۔ رمضان میں مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں،کالجوں اور اداروں میں نظام الاوقات تبدیل ہوجاتاہے ۔ افطاری بازارمیں رنگ برنگ کی کھانے پینے کی چیزیں پھل اور نہ جانے کیا کیا ۔اب تو افطار پارٹیوں کا چلن اتنا بڑھ گیا ہے کہ بعض لوگ تو ایک ہی دن میں کئی کئی جگہ مدعو ہوتے ہیں ۔ محلے کے لوگ آپس میں بھی پکی ہوئی خاص چیزوں کا تبادله کرتے ہیں لیکن مساجد میں بھی افطاری بھیجنا نہیں بھولتے تاکہ مسافر ،فقراء اور مساکین افطار کرسکیں۔ اکثر مقامات پر مقامی لوگ بھی مسجدہی میں افطار کرتے ہیں ۔اس کا نظم باری باری محلے ہی کے اصحاب خیر کرتے ہیں ۔نماز تراویح کا بھی خاص اہتمام ہوتاہے۔ پاکستان میں ماہ مبارک رمضان کی آمد پر گانا، باجا اور تمام لہو و لعب بند ہو جاتا ہے ۔ دکانوں، گاڑیوں اور گھروں سے صرف تلاوت قرآن اور نعتوں قوالیوں کی آوازیں آتی ہیں۔ مساجد سے تفسیر قرآن اور مذہبی تقاریر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نمازیوں کا مساجد میں ازدحام آغاز ہو جاتا ہے مساجد کے قریب کی سڑکوں پر بھی نمازیوں کی صفیں لگتی ہیں۔ مسلمانوں میں مرسوم ہے کہ نماز مغرب مسجد میں ادا کرتے ہیں اس کے فورا بعد مساجد میں افطاری کی جاتی ہے۔ آخری سالوں میں بعض مساجد میں حتی سحری کے پروگرام بھی نظر آنے لگے ہیں۔ پاکستان کی سڑکوں میں ظہر کے وقت نماز کے بعد پیاز اور گوشت فراواں بکتا ہے اسی طریقے سے ماہ رمضان کے آخری دنوں میں حلوا اور میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں عید کے دنوں میں پاکستان کے بازار ۲۴ گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔تاکہ لوگوں کی ضروریات پورا کی جا سکیں۔ امام حسن علیہ السلام ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے مورخین کا کہنا ہے کہ رسول اکرم(ص) کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول خدا (ص) کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیا کے سامنے سورئہ کوثرکی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی. عالم اسلام اس دن کو عقیدت و احترام سے مناتی ہے ۔19 ماہ رمضان المبارک کو سن40 ھ ق حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں عبد االرحمن بن ملجم کےقاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ ۔ نماز فجر میں سجدہ معبود میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی پیشانی اس وقت خون میں غلطاں ہوئی اور سر مبارک شمشیر ظلم سےشگافتہ ہوا .20 رمضان کو حضرت علی علیہ السلام نے بڑے درد و غم میں بسر کیا اور کائنات کے امیر 21 رمضان کو اپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔ عالم اسلام ان کی یاد میں ان ایام میں شب بیداری اور مجالس و عزاداری کا ایتمام کرتی ہے۔ شب قدر بھی ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں پوشیدہ ہے کہ مصلحتوں کی بنا پر دقیق طور سے اس کا وقت معین نہیں ہوا ہے دوسری طرف سے چالیس اقوال اس بارے میں ذکر ہوئے ہیں کہ کون سی رات'' شب قدر'' ہے . تفسیروں میں نقل ہوا ہے کہ ٹھیک طرح سے واضح نہیں ہے کہ آخر شب قدر کون سی رات ہے لیکن روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی ا خری دس راتوں میں ہی شب قدر ہے اور چنا نچہ ایسی متواتر روایات، جو طاق راتوں کے سلسلے میں زیادہ تا کید کرتی ہیں، کو قبول کیا جائے تو یقیناً شب قدر ان تین راتوں یعنی١٩،٢١ اور٢٣ کی راتوں سے خارج نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "لیلة القدر میں آنے والے سال تک کے تمام امور یعنی اچھائی اور برائی طاعت و معصیت، پیدا ہونے والے بچے، موت و رزق و روزی وغیرہ، غرض سب کچھ مقدر کر دیئے جاتے اور لکھ دیئے جاتے ہیں۔ پھر جو چیزیں اس سال کی قضا و قدر میں آ جاتی ہیں وہ حتمی ہوتی ہیں اور اسی میں اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔" عالم اسلام کے لیے رمضان کا آخری ہفته وحدت کا ہے اور رمضان کا آخری جمعه روز یوم القدس یا یوم اسلام ہے اور فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے ۔ اسرائیل کا وجود اور فلسطین پر ظالمانہ قبضہ حقیقت میں اس دور کی بڑی طاقتوں امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی سازشوں اور اسلام مخالف رویوں کا شاخصانہ ہے ۔ غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر اس ظالم ریاست کے ظلم و تشدد اور مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل نے آج تک جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے مغرب اور امریکہ کی بھرپور حمایت تھی ۔اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی اداروں میں کئی دفعہ قراردادیں آئیں لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا اگر کبھی غلطی سے کوئی قرارداد امریکہ کے ویٹو سے بچ بھی گئی تو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت کی وجہ سے اسے کبھی بھی قابل توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھا۔ مغرب کی اس بے جا اور بھر پور حمایت نے اسرائیل کی غاصب صہیونی ریاست کو اتنا جری بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف علی الاعلان عالمی اداروں کے فیصلوں کو نہیں مانتی بلکہ ان فیصلوں اور قراردادوں کے خلاف عمل کرتی ہے۔ اسی دوران امام خمینی (رح) کی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھرمیں فلسطینی مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا جمعۃ الوداع کے دن یوم القدس منانے کے اعلان نے دنیا بھر میں ایک بار پھر فلسطین کے مسئلے کو زندہ کردیا۔امریکہ مغربی ممالک اور صہیونی لابی جس مسئلے کو ایک معمولی علاقائی مسئلہ بنا کر عالمی مسائل کی فہرست سے نکالنا چاہتے تھے امام خمینی (رح) نے جمعۃ الوداع کے دن کو یوم القدس قرار دے کر انکی سازشوں کو نقش برآب ثابت کردیا . انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آجائے یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائیں . اگر عالم اسلام اس دن کو کما حقہ منائے اور صیہونیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرنے کے لئے اس دن کا بخوبی استعمال کرے تو کافی حد تک دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے، اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ شوال کا پہلا دن عید سعید فطر ہے اور یہ دن عالم اسلام کی مشترک عید ہے ۔ مؤمنین رمضان مبارک کے گزرجانے اور اس مہینے میں عبادت وتقوی پرہیز گاری و تہذیب نفس کے ساتھ گزارنے پر خوشی اور اللہ سے ان نعمات کا شکریہ کرنے کیلۓ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے روابط قائم کرتے ہوۓ عید کی نماز پڑھتے ہیں ۔ | ||
Statistics View: 3,231 |
||