حضرت امام خمینی اور یوم القدس | ||
![]() | ||
حضرت امام خمینی اور یوم القدس ڈاکٹر سید عباس راشد نقوی فلسطینی عوام اور قدس کے مسئلے پر عالمی توجہ کی نئی لہر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے شروع ہوئی۔ درحقیقت اسلامی انقلاب کی کامیابی سے بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں نئے سیاسی کلچر کا اضافہ ہوا جس کی بنیاد قبضے کی نفی اور سامراج کے مقابل دنیا کے مظلومین کی حمایت پر استوار تھی اور یہ اسلام کی اعلی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دنیا کے مظلوموں کی حمایت خصوصا فلسطینی عوام کی حمایت ہمیشہ ایران کے ایجنڈے میں شامل رہی ہے۔ اسلامی انقلاب کے ابتدائی مہینوں میں ہی اگست انیس سو اناسی کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کا نام دیا اور اسی بنا پر گزشتہ تین عشروں سے زائد کے عرصے میں عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اس اقدام نے فلسطینی عوام کی حمایت کے سلسلے میں عالمی برادری میں ایک نئی روح پھونک دی اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف اسلامی ملکوں میں بلکہ دنیا کے مختلف علاقوں، یورپی ملکوں کے شہروں اور حتی امریکہ کے مختلف شہروں میں یوم القدس کے موقع پر فلسطینی عوام کی حمایت میں جلوس نکالے جاتے ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ملکوں کی رائے عامہ میں بھی یورپی ممالک کی جانب سے صیہونی حکومت کی اندھی حمایت پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ فلسطینی عوام کی حمایت میں پوری دنیا سے قافلے قدس کی جانب جا رہے ہیں جس کی وجہ سے صیہونی حکومت سخت خوف و وحشت کا شکار ہے اور یہ سب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دے کر پوری دنیا میں فلسطینی عوام کی حمایت کا راستہ ہموار کر دیا۔امام خمینی رہ کا ایک تاریخ ساز اور ہمیشہ یاد رکھا جانے والا کارنامہ فلسطین کے مظلوم بھائیوں سے اظہار یکجہتی میں عالمی یوم القدس منانے کا اعلان کرنا ہے۔ امام خمینی رہ کا یوم القدس منانے کا مقصد فلسطینی بھائیوں کی غریب الوطنی، مظلومیت اور تکالیف کو دیکھتے ہوئے استعماری طاقتوں کے خلاف عملاً قیام کرنا تھا۔یہ رہبر کبیر کی مدبرانہ سیاست اور حالات حاضرہ پر کڑی نظر ہی تھی جس کے باعث انہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے فورا بعد تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ کو بند کر دیا اور اسرائیل سے ہر طرح کے سفارتی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اسرائیلی سفارت خانے کو ختم کر دینے کے بعد امام خمینی وہ پہلے مسلم لیڈر تھے جنھوں نے فلسطینی عوام کے حقوق کی جنگ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر لڑنے کا عملی آغاز کیا۔ ان کے حکم پر تہران میں فلسطینی سفارت خانے کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دن سے جمعة الوداع کے دن کو عالمی یوم القدس سے تعبیر کر کے فرزندان توحید کو فلسطینی بھائیوں کے حقوق کی جنگ میں عملی طور پر شریک کر لیا گیا۔ امام خمینی رہ کے جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دینے کے آغاز میں صرف ایران، پاکستان، لبنان اور فلسطین میں ہی یوم القدس منایا جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور اسلام دشمنی تمام مسلمانوں پر کھل کر آشکار ہونے لگی جس نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کی اور امام خمینی رہ کے یوم القدس منانے کے فیصلے کو سراہا جانے لگا حتی کہ آج امریکہ اور برطانیہ میں مقیم مسلمان بھی صیہونیت کے خلاف یوم القدس بڑی شد و مد سے مناتے ہیں۔ یوم القدس کی روز افزوں کامیابی اور امت مسلمہ کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے سے صیہونیت پرست عناصر متفکر ہیں اس مسئلے کے حل کے لیے انھوں نے اپنی ازلی ڈھٹائی اور سازشی ذہن کی اختراع سے مسئلہ فلسطین کو بھی مسئلہ کشمیر کی طرح ایک جغرافیائی مسئلہ قرار دیا اور فلسطینیوں کو امت مسلمہ سے تن تنہا کرنے کی سازش کا آغاز کر دیا، بدقسمتی سے چند مفاد پرست مسلم حکمرانوں نے بھی استعمار کی سازش پر لبیک کہتے ہوئے بیت المقدس کو یہودیوں کی ملکیت قرار دیا اور مسلمانوں کے قبلہ اول پر حق سے دستبردار ہو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ امام خمینی کی دور رس نظروں نے اس سازش کا بہت پہلے سے ہی ادراک کرتے ہوئے عالم یوم القدس منانے کا اعلان کیا تھا تا کہ تمام امت مسلمہ باہم شیر و شکر ہو کر اور اخوت و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوم القدس منائے اور عالمی سطح پر بیت المقدس پر صیہونی قبضہ کے خلاف قیام کرے۔ امام خمینی نے امت مسلمہ کو یوم القدس کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا جس کے ذریعے سے مسلم امہ صیہونیت کے لیے ہر دم لٹکتی تلوار کی مانند ہے یہی وجہ ہے کہ یوم القدس کی امریکہ اور اس کے حواری شدید مذمت کرتے نظر آتے ہیں اور امریکہ نواز حکومتیں اس دن کی کسی طور سرپرستی نہیں کرتیں مگر آج بھی امت مسلمہ کے عظیئم رہنماء اور وارث فکر خمینی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں ہر سال یوم القدس انتہائی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے اور صیہونیت کے علمبرداروں کو للکارا جاتا ہے۔ یہ امام خمینی کی ظالموں کے خلاف قیام کرنے کی حکمت عملی ہی تھی جس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے مشرق وسطی کے عوام آج بیداری کے اس دور سے گزر رہے ہیں جن کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ لاکھوں کروڑوں مظلومین نے مشرق وسطی میں قید و بند، ظلم و جو ر، سفاکیت، بربریت اور تشدد برداشت کرکے اپنے اپنے ممالک کے غاصب اور مطلق العنان بادشاہوں کو شکست فاش سے ہمکنار کیا اور آج صیہونیت پرست اور مطلق العنان حکومتوں کے مالک حمد بن ال خلیفہ، علی زین العابدین اور حسنی مبارک یا تو اپنی اپنی زندگیوں کے دن گن رہے ہیں، یا مظلومین سے انصاف کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ مشرق وسطی میں مسلمانوں کی بیداری اور ایک نئے مشرق وسطی کے ظہور سے اس بات کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ اب جلد ہی فلسطینی مسلمان اپنی سرزمین پر آزادی کا سانس لے سکیں گے اور اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے مظلومین کو بھی سکھ، چین اور امن کی زندگی نصیب ہو گی جن کی زندگیوں سے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سکون مفقود کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ فلسطینی سرزمین پر دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں یہودیوں کو آباد کیا گیا تھا اور فورا ہی اقوام متحدہ سے نئی اسرائیلی ریاست کی منظوری بھی دلوائی گئی تا کہ فلسطینی عوام سے احتجاج کا حق بھی چھین لیا جائے۔ برطانیہ اور امریکہ نے نہایت چالاکی سے یہودیوں کو مظلوم اور بے گھر ثابت کیا اسی عالمی سازش کا قلع قمع کرنے کے لیے حضرت آیت اللہ امام خمینی نے عالمی یوم القدس منانے کا اعادہ کیا جسے ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت اور عوامی تائید حاصل ہو رہی ہے۔یہ حضرت آیت اللہ امام خمینی کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ عالمی رائے عامہ بیت المقدس میں صیہونی حکومت کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے خلاف ہے۔ چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی استقامت کے ساتھہ ساتھہ صیہونی حکومت کے خلاف عالمی انتفاضہ کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے | ||
Statistics View: 2,917 |
||