فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخ، اجمالی جائزہ | ||
فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخ، اجمالی جائزہ محمد انیس عباس پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر وائز مین جو اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علبردار تھا، انگریز حکومت سے اس نے وہ مشہور پروانہ حاصل کر لیا، جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے۔ اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی۔ اس موقع پر لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھتا ہے: "ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں۔" بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزات (Documents of British Policy)کی جلد دوم میں ثبت ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1917ء میں یہودی آبادی جو صرف 25 ہزار تھی وہ پانچ سال میں بڑھ کر 38 ہزار کے قریب ہو گئی۔ 1922ء سے 1939ء تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صیہونی ا یجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع کر دیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں، جنھوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ اب ان کی خواہش تھی کہ فلسطین کو یہودیوں کا "قومی وطن" کی بجائے "قومی ریاست" کا درجہ حاصل ہو جائے۔ 1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس کے خلاف31 ووٹ تھے۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔ آخر کار امریکہ نے غیر معمولی دباؤ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائبیریا کو مجبور کر کے اس کی تائید کرائی۔ یہ بات خود امریکن کانگریس کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی حاصل کیے گئے تھے۔ تقسیم کی جو تجویز ان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی، اس کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو، اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6 فیصد حصہ یہودیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ یہودی اس تقسیم سے بھی راضی نہ ہوئے اور انہوں نے مار دھاڑ کر کے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ آرنلڈ تائن بی اپنی کتاب A Study of History میں لکھتا ہے کہ: وہ مظالم کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ دیریا سین میں 9 اپریل 1948ء کے قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے، جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا اور یہودی موٹروں پر لاؤ ڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ:"ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ"۔ ان حالات میں14 مئی 1948ء کو عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلہ پر بحث کر رہی تھی، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا۔ حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔ اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم (بیت المقدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ پس یہی ہے وہ منحوس دن جس کو تاریخ ِ فلسطین میں یوم نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کر لیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا، یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن،لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی، چنانچہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ ان کا قتل عام کیا گیا، اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔ اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے ان 64 برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔کون سا ظلم ہے، جو بے گناہ، معصوم اور مظلوم قرار دیئے گئے ارض مقدس فلسطین کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا بلآخردرماندہ، ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن، گھر اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں شروع کیں۔ دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے بہت زیادہ مالی و فوجی امداد دی اور ہر قسم کا تعاون کیا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا، جبکہ امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیتا۔ اس کشمکش میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کیے اور لبنان کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہو گیا۔ یوں تحریک آزادی فلسطین کے بعد مزاحمت اسلامی لبنان نے بھی جنم لیا اور اسرائیل کی توسیع پسندی و تشدد پسندی کے خلاف قربانیوں کی داستانیں رقم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کر کے عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے ان 64 برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں، ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔ گذشتہ برسوں میں شیخ احمد یٰسین، ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ راہنمائی کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج فلسطین کے اندر یا باہر پیدا ہونے والے فلسطینی بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے، ان کے کانوں میں شہادت و جہاد کے شعار کی اذان دی جاتی ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں، ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردوں کی غداری کے باوجود یہاں پر ارضِ مقدس فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طو ر پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر فلسطینی بچہ، بزرگ، نوجوان، خواتین، اس عزم پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں، لیکن ارضِ مقدس فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائیں گے۔ | ||
Statistics View: 4,393 |
||